اسلام کا نظام خلافت

:سوال

اسلام کا نظام خلافت صرف چند دہائیوں تک ہی کیوں چل سکا؟ کیا جیسا کہ ڈاکٹر اسرار صاحب حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ نبی ؐ نے خود ہی فرما دیا تھا کہ خلافت اتنے سالوں بعد ختم ہو جائے گی اور ملوکیت آ جائے گی۔ اس کے بعد بھی کہانی بیان ہوتی ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ طے شدہ پروگرام تھا کہ اتنے سالوں بعد خلافت ختم ہو جائے گی؟ یا اسلام اپنے پیروکاروں کی درست تربیت نہیں کر پایا؟

:جواب

آپ نے جو سوال کیا ہے وہ بالعموم ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے اور موجود دور میں ہمارے ہاں اسلام کی جو سیاسی تعبیر کی گئی ہے اس کے نتیجے میں تو یہ سوال بہت زیادہ عام ہوگیا ہے کہ کیوں خلافتِ راشدہ تھوڑے ہی عرصے میں ختم ہوگئی؟
ہمارے نزدیک اگر اصل بات سمجھ لی جائے تو اس سوال کا جواب بآسانی مل جاتا ہے۔ قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رسول بھی تھے اور رسول ہونے کی صورت میں یہ بات مقدر ہوتی ہے کہ رسول کا انکار کرنے والوں کو دنیا ہی میں ہلاک کردیا جائے گا اور اس پر ایمان لانے والوں کو زمین کا وارث اور حکمران بنادیا جائے گا۔ قرآنِ کریم دیگر رسولوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ اس ضابطے کو صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں بھی اسی کی پیش گوئی کرتاہے۔سورہ نصر،سورہ بنی اسرا‎‏ئیل(آیت76-77)، سورہ قمر(آیت45-43) ، سورہ ص(آیت11) اور سورہ روم (آیت5-4)وغیرہ میں اس کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ اس اصول کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین، قریش کے سردار جنگِ بدر میں ہلاک کردیے گئے جبکہ آپ کا انکار کرنے والے یہود و نصاریٰ کو ذلیل کرکے محکوم بنادیا گیا اور آپ کے ماننے والوں کو اقتدار دے دیا گیا۔
سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو اسی پ س منظر میں زمین پر غلبے اور اقتدار کی بشارت دی تھی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین پر ضرور اقتدار بخشے گا، جس طرح ان سے پہلے والوں کو اقتدار عطاکیا تھا۔ اور ان کے اس دین کو جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، مضبوط بنادے گا۔اور ان کے لیے ان کے خوف (کی موجودہ کیفیت ) کوامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔اور جو اس کے بعد کفر کرے تووہی فاسق ہے،”(نور 55:24)
اس آیت کو تدبر کی نگاہ سے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب صحابہ کرام ہی سے تھا۔ چنانچہ خلافتِ راشدہ میں ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا۔ البتہ خلافتِ راشدہ میں ایک واقعہ اور رونما ہوا تھا۔ وہ یہ کہ بہت بڑی تعداد میں غیرمسلموں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ چنانچہ ایک طرف تو صحابہ کرام اپنی طبعی عمر کی بنیاد پر ایک ایک کرکے اس دنیا سے رخصت ہونے لگے اور دوسری طرف کثیر تعداد میں نومسلموں کی بنا پروہ معاشرے میں اقلیت میں بدلتے چلے گئے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم کی آیت سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ان سے من حیث الجماعت تھا۔ چنانچہ جب ان کی تعداد ہی بہت کم ہوگئی تو فطری طور پر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو اپنی تکمیل کے بعد بہرحال ختم ہوجانا تھا۔
قرآنِ کریم کے اس بیان کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو حیرت اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ خلافتِ راشدہ کا نظام کچھ عرصے بعد ختم ہوگیا بلکہ حیرت اس وقت ہوتی جب صحابہ کرام کے بعد بھی خلافتِ راشدہ کا یہ نظام چلتا رہتا۔ اس لیے ہمارے نزدیک خلافتِ راشدہ کا قائم ہونا بھی اللہ کی بات کی سچائی کا اظہار تھا اور اس کا ختم ہونا بھی اُس کے وعدے کی سچائی ہی کا ثبوت ہے۔

One thought on “اسلام کا نظام خلافت

Leave a comment