ذکر آزاد صفحہ 25

” میں پیدائشی مسلمان ہوں لیکن آپ یہ سن کر تعجب کریں گے کہ پیدائشی اور خاندانی ورثے میں مجھے جو مذہب ملا تھا میں اُس پر قانع نہیں رہا اور جوں ہی مجھ میں اتنی طاقت پیدا ہوئی کہ کسی چیز کو اپنے سے الگ کر سکوں ، میں نے اُسے الگ کر دیا اور پھر ایک خالی دل و دماغ لے کر طلب و جستجو میں نکلا۔ اس جستجو میں مجھے بہت سی منزلوں سے گزرنا پڑا اور پے در پے کئی ذہنی انقلاب میرے دل و دماغ پر طاری رہے۔ بالآخر میں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا اور یہ وہی مقام ہے جہاں اپنے آپ کو اب پاتا ہوں۔ بلاشبہ یہ اسلام ہے ، لیکن وہ اسلام نہیں ہے جو محض رسم و تقلید کا مجموعہ تھا۔ اور مجھے پیدائشی ورثے میں ملا تھا۔ میں اب اس لیے مسلمان نہیں ہوں کہ مجھے خاندانی طور پر ایسا ہونا چاہیے بلکہ اس لیے ہوں کہ میں نے اپنی طلب و جستجو سے اس کا سراغ پایا ہے۔ مجھے یقین و اطمینان کی تلاش تھی اور وہ مجھے یہیں ملا “

[ مولانا ابوالکلام آزاد]
📖 ذکرِ آزاد ، صـ ۲۵

کس کی یہ تمنا پوری ہوگی؟

ایک گفتگو سے ماخوذ

میں ہوں، آپ ہوں، ہماری قوم کے لوگ ہوں یا دوسری قوم کے، ترقی یافتہ لوگ ہوں یا پس ماندہ، علم و فن کے ماہر افراد ہوں یا جاہل حضرات، کوئی آپ جیسا مصنف ہو یا آپ کی تصنیف پڑھنے والا مجھ جیسا عام آدمی، یہ زندگی تو ہر کوئی گزار لیتا ہے چاہے عشرت کے ساتھ ہو یا عسرت کے ساتھ، غالب بن کر یا مغلوب ہوکر- انسان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بات سے غافل ہے کہ وہ اس دنیا میں کس مقصد کے لیے آیا ہے؟ انسانی نفسیات پر اگر ذرا سا تدبر کریں تو اس “مقصد” کو دریافت کرنا بالکل آسان ہے
دو چیزیں ایسی ہیں جس کا ہر انسان طلبگار ہوتا ہے – پہلی یہ کہ ہر انسان آسائش سے بھر پور اور باوقار زندگی چاہتا ہے – دوسری یہ کہ مرنا کوئی نہیں چاہتا ہے – دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان آسائشوں سے بھر پور ایک ابدی زندگی کا متمنی ہے -اب ذرا ہم ﷲ کی کتاب کھول کر پڑھیں اور یہ سوچیں کہ انسانوں میں سے کون ہے جس کی یہ تمنا پوری ہوگی؟

وَالشَّمۡسِ وَضُحٰٮهَا ۞ وَالۡقَمَرِ اِذَا تَلٰٮهَا ۞ وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰٮهَا ۞ وَالَّيۡلِ اِذَا يَغۡشٰٮهَا ۞ وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰٮهَا ۞ وَالۡاَرۡضِ وَمَا طَحٰٮهَا ۞ وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا ۞ فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۞ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮهَا ۞

کوئی ہندو، کوئی مسلم، کوئی عیسائی ہے
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے

نوٹ: میں اس شعر میں مسلم سے مراد قوم پرست مسلمان لیتا ہوں، جبکہ ایک حقیقی مسلم تو وہ ہے جو پوری انسانیت کا خیر خواہ ہو جیسا کہ انبیاء کرام ہوا کرتے تھے

شکیل اشرف ٢٠ اگست ٢٠٢٢

تنگی داماں

دین اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے – یہ ایک نقطہ نظر ہے جس میں بے پناہ دلکشی پائی جاتی ہے – اس کے مقابل دوسرا سادہ سا نقطہ نظر یہ ہے کہ دین ہمیں کوئی تیار شدہ نظام حیات نہیں دیتا بلکہ نظام حیات کی تشکیل کے لئے ضروری ھدایات دیتا ہے – اس نقطہ نظر کے مطابق دین وہ ھدایات ہیں جو اللّٰهَ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے انسانوں کے لئے بھیجے ہیں – دین کے تین شعبے ہیں : ایمانیات ،اخلاقیات اور شریعت – پہلے دو شعبوں کی باتیں تخلیق انسانی سے لیکر دنیا کے فنا ہونے تک ایک رہیں گی – تیسرا شعبہ ہے شریعت- شریعت کا مطلب قانون ہوتا ہے اور قانون میں تہزیب و تمدن کے ساتھ تغیرات بھی ہوتی ہیں – آج سے چودہ سو سال پہلے نبوت ختم ہو گئی اور شریعت مکمل ہو گیا – اگر شریعت کا مطلب قانون ہے تو پھر ساتویں صدی عیسوی کا قانون کس طرح اس دنیا کے فنا ہونے تک اپنی افادیت قائم رکھ سکتا ہے، یہ ایک نہایت اہم سوال ہے – شریعت اللّٰهَ کا دیا ہوا قانون ہے، چاہے وہ اس کی کتاب میں ہو یا اس کے پیغمبر کی سنتوں میں – اللّٰهَ کی شریعت میں اتنی وسعت ہے کہ وہ رہتی دنیا تک کے لئے قابل عمل ہے – یہاں وسعت سے مراد اس کی جسامت نہیں ہے – بلکہ جسامت اس کی نہایت مختصر ہے لیکن اس کی قوت بے انتہا ہے – اسے ہم یوں سمجھیں کہ ایک مضبوط زمین پر صرف ڈیڑھ میٹر گہری بنیاد پر ہم سو میٹر کی اونچائی والی عمارت تعمیر کر سکتے ہیں –
فقہاء کرام نے اپنے دور کی ضرورتوں کے مطابق اس بنیاد پر عمارتیں تعمیر کیں – تمدنی ارتقاء کے ساتھ انسانی ضرورتیں بدلتی ہیں – شریعت کی مضبوط بنیاد تو ہر دور کے لئے موجود ہے لیکن نئی عمارتوں کی تعمیر کے لئے اب کسی کو معمار بننے کی اجازت نہیں ہے – اجتہاد کو فتنہ کہا جاتا ہے – پرانی عمارتوں میں گزارہ کرنا اب امت کا مقدر ٹھہرا-

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا

شکیل اشرف
24/11/20